۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید شاہد جمال رضوی 

حوزه/ ہمارا لاکھوں سلام امام کی اس حکمت عملی پر جس نے باطل کے دربار میں باطل پرستوں کے سامنے حق و حقانیت کا لوہا منوالیا۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی 

حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا کے تپتے ذرات جن میں نہ ظاہری شان و شوکت، نہ کوئی مرتبہ و منزلت ، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ آج بھی آفتاب کی روشنی میں بے چینی سے تڑپ کر ایک دردناک اور جانکاہ واقعہ کی ترجمانی اور بنی امیہ کی وحشیانہ سیہ کاریوں پر بھرپور روشنی ڈال رہے ہیں اور پوری کائنات کو مظلوموں کی بے کسی کا پر درد افسانہ سنا کر موثر اور دلوں کو منقلب کررہے ہیں ۔

تاریخ عالم و آدم میں اتنا المناک اور کربناک واقعہ کیوں پیش آیا ؟ ! صرف اس لئے نہ کہ اس وقت روحانیت کا آفاقی نام و نشان مٹ رہاتھا ، حق و صداقت سے لوگ بری طرح گریزاں تھے ، اسلام کی حقیقی تصویر نگاہوں سے اوجھل ہو رہی تھی ، وحدانیت کی تعلیم کا اثر دل و دماغ سے ختم ہورہاتھا اور باطل اپنا پھن پھیلائے ڈسنے کو تیار تھا ۔ ایسے پر آشوب اور سیہ بخت زمانے میں حسین بن علی علیہما السلام ، اسلام کا حقیقی پر چم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ، جن کا نصب العین اسلامی روحانیت کی بقا تھا جو ان کے سرمایہ پرستی کے خلاف جنگ کرکے حرمت کا سبق آموز نظیر پیش کررہے تھے ، جن کو یقین تھا کہ میری ظاہری شکست سے حقیقی فتح و کامرانی کے پہلو نمایاں ہوں گے ۔اور وہی مظلوم یہ طے کرچکاتھا کہ خواہ اصحاب و اعزہ کی مفارقت کا داغ ہو یا دنیا جہاں کا درد برداشت کرنا پڑے ، کروںگا لیکن اسلام کی تصویر مسخ نہیں ہونے دوںگا اور ہوا بھی یہی ؛ بقول شاعر:
زمیں بدلی ، فلک بدلا ، جہاں میں انقلاب آیا
مگر دنیا نہ بدلی شاہ کے عزم مصمم کی

ہاں ! یہ حقیقت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی ابد آثار شہادت کے بعد بھی سورۂ کہف اور دیگر قرآنی آیات کی تلاوت کے ذریعہ حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی لیکن سادہ لوح افراد کو باور کرانے کے لئے ضروری تھا کہ ایک صاحب جسم و روح اپنے خطبات و ارشادات اور اپنی حکمت عملی کی روشن قندیلوں کے ذریعہ شام و کوفہ کے گمراہ کن اور ضلالتوں سے بھرپور معاشرے میں دین و شریعت ، حق و حقانیت ، خیر و برکت اور تھکتی روح کو روشنی عطا کرے اور اپنے عملی اور واقعی اقدامات سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے ۔

ہمارے محسوسات یہ درک کرنے سے عاجز ہیں کہ شہداء کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی حیثیت کیا تھی ، اس لئے کہ ایک طرف شہداء کے خون سے لالہ زار مقتل نگاہوں میں گردش کررہاتھا تو دوسری طرف کوفہ و شام کی راہوں میں سیدانیوں کی اسیری اور تماشائیوں کا بے پناہ ہجوم مشاہدہ میں تھا ، ایسے میں ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرنی تھی جس سے شہداء کی شہادت کے اسباب و علل پر بھرپور روشنی پڑ سکے اور تماشائیوں کی نگاہوں میں سیدانیوں کی اسیری کے عقدے بھی کھل سکیں اور ظالموں کا حقیقی چہرہ سامنے آجائے ۔ یہ کام کس قدر مشکل تھا اس اندازہ لگانا محال ہے اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد باطل پرست حق و حقانیت کو مسخ کرنے کے لئے اپنے تمام تر ذرائع استعمال کررہے تھے ، ایسے میں یک و تنہا حق کی طرف سے باطل کو زیر کرنا ایک لمحۂ فکریہ دے رہاہے ۔

آپ ملاحظہ فرمائیں کہ امام مظلوم کی شہادت اور اہل حرم پر مظالم میں دو ہی جماعتیں کار پرداز تھیں :
١۔ اہل کوفہ
٢۔ اہل شام
امام علیہ السلام نے انہیں لوگوں کے درمیان واقعات کا حقیقی رخ پیش کیا ، اس میں بھی ہر ایک کی حکمت عملی قابل صد تعریف و توصیف ہے ،چونکہ اہل کوفہ آپ کی خاندانی عظمت و جلالت سے پوری طرح واقف تھے ، آپ کی خاندانی عظمت ان کے دل و دماغ میں جاگزیں تھی نیز ان کو خاندانی حالات پر بہت زیادہ عبور حاصل تھا ۔ صرف مزاج کی بے اعتدالی اور پست فطرتی نے بنی امیہ کی حمایت پر آمادہ کردیا ۔ لہذا امام علیہ السلام نے کوفہ میں جو ارشادات و خطبات پیش کئے ان میں اپنے تعارف سے زیادہ واقعات کی اہمیت پر زور دیا کہ کربلا کی زمین پر جو واقعہ پیش آیا وہ کس نوعیت کا تھا نیز اہل کوفہ کے ضمیروں کو جھنجھوڑا کہ تم لوگوں سے کتنا عظیم جرم سرزد ہوا ہے ۔
چنانچہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
ایھا الناس من عرفنی فقد عرفنی و من لم یعرفنی فنا علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ، انا ابن من انتھکت حرمة و سلبت نعمة و انھب مالہ و سنی عیالہ ...''اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہوں ، میں اس کا بیٹا ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی ، اس کا سامان چھین لیاگیا ، اس کے گھر والوں کو قیدی بنالیاگیا ...''۔
انا ابن المذبوح بشط فرات من نمیر ذحل و لا ثرات ، ان اابن من قتل صبرا و کفیٰ بذالک الفحرا... ''میں شط فرات کے شہید کا فرزند ہوں جسے بے گناہ اور چاروں طرف سے گھیر کر قتل کیاگیا ...''۔(١)
مولا اتنا کہنے کے بعد خاموش نہیں ہوئے بلکہ واقعات کربلا کی شدت کو بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا:
ایھا الناس ! فاشد تکم اللہ ھل تعلمون انکم کتبتم الی ابی و خدتموہ و اعطیتموہ من انفسکم العھود و المیثاق و قاتلتموہ فتبالکم لماقد متم لانفسکم و سواة لرایکم بایہ عین تنظرون الی رسول اللہ اذا یقول لکم قتلتم عترتی و انھتکم حرمتی فلستم من امتی ''اے لوگو!میں تمہیں قسم دیتاہوں ، ذرا سوچو کہ تم نے ہی میرے پدر بزرگوار کو خط لکھا اور پھر تمہیں نے ان کو دھوکہ دیا اور تم نے ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا اور ان کی بیعت کی اور پھر تم نے ہی ان کو شہید کیا ، تمہارا برا ہو کہ تم نے اپنے لئے ہلاکت کا سامان مہیا کرلیا ، تمہاری راہیں کس قدر بری ہیں ، تم کن آنکھوں سے رسول اللہ کو دیکھوگے جب رسول تم سے بازپرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کیا اور میرے اہل حرم کو ذلیل کیا اس لئے تم میری امت میں نہیں ہو''۔(٢)

ایک دوسری روایت میں بھی آپ کا لب و لہجہ متذکرہ روایت سے بالکل مشابہ ہے، جس میں آپ نے اپنے تعارف سے زیادہ واقعات کربلا کی حقیقت اور اسیری اہل حرم کے دل سوز سانحہ کے بیان کو ضروری خیال فرمایا ہے ؛ چنانچہ آپ تمام اہل کوفہ کو سر راہ مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یا اھل الکوفہ فان بالذی اصیب حسین کان ذلک اعظم فقتل بش النھر و روحی فداہ اجزاء الذی ارداہ نار جھنم '' اے اہل کوفہ !تم لوگ اس مصیبت پر خوش و خرم نہ ہو جو امام حسین علیہ السلام پر پڑی ہے اس لئے یہ امر ( قتل امام مظلوم ) بہت عظیم امر ہے ، ( حسین ؑ) نہر کے کنارے قتل کئے گئے ، میری جان ان پر فداہو اور جس نے ان کو قتل کیا اس کے لئے دوزخ کی آگ ہوگی ''۔(٣)

ان ارشادات کا مقصد یہ تھاکہ لوگوں کے دلوں سے جو حقائق محو ہوگئے ہیں ، مالی طمع اور بے ایمانی کے زیر اثر لوگوں کے دلوں سے جو معارف گم گشتہ ہوگئے ہیں وہ پھر سے تازہ دم ہوجائیں اور واقعات کربلا کو سامنے رکھ کر اپنے تئیں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کریں ۔ آپ کی یہ حکمت عملی کس قدر کامیاب و کامران تھی بیان و تحریر سے باہر ہے ۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اس کلام بلیغ اور نصیحت آمیز باتوں کو سن کر لوگوں میں شور گریہ بلند ہونے لگا ، وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے : دیکھو تم نے خود اپنی ہلاکت کا سامان فراہم کیااور انجام کار سے قطعی بے خبر رہے ۔ پھر سب نے امام علیہ السلام کے سامنے دست ادب جوڑ دئیے : آپ فرمائیں تو اسی وقت ہم آپ کی حمایت کے لئے آمادہ ہیں ۔(٤)

اگر کوئی عام شخص ہوتا تو اپنے باپ کے انتقام خون کے لئے سب کچھ کرسکتا تھا ، خاص طور سے اس وقت جب ایک بڑی جماعت حمایت کے لئے آمادہ ہے ، اس لئے کہ انتقام اور بدلے کی آگ انسان کو ہر اچھی بری فکر سے بے نیاز کردیتی ہے مگر آپ امام تھے ، آپ کی حکمت بھی امامت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ، آپ نہیں چاہتے تھے کہ کوفہ کی راہوں میں خون کی ندی جاری ہو ، اگر یہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو کربلا کا عظیم سانحہ اسی کی نذر ہوکر رہ جائے گا ۔ حالانکہ امام حسین علیہ السلام نے رہتی دنیا تک اپنی شہادت سے حق کی حمایت کے لئے ایک نافراموش مثال قائم کی تھی ، کربلا کا واقعہ ایسا نہیں تھا کہ اسے چند دنوں میں ہی بھلا دیاجاتا چونکہ کربلا کے سانحہ کو ابد آثار بنانا تھا اور پہلے کے واقعات بھی آپ کے ذہن میں گردش کررہے تھے لہذا آپ نے بڑی بے توجہی سے ان کے حمایت بھرے الفاظ سنے اور حکمت کی ناقابل فراموش نظیر قائم کرتے ہوئے فرمایا :
اے قوم غدار !تم پر خواہشات نفسانی غالب ہوگئی ہے ، اب تم یہ چاہتے ہو کہ مجھ سے وہی برتائو کرو جو اس سے پہلے میرے باپ دادا سے کیاتھا ، خدا کی قسم !کبھی نہ ہوگا کیونکہ یہ زخم مندمل ہونے والا نہیں ہے ، میرے پدر بزرگوار اپنے اعز ہ و اقارب کے ساتھ شہید کئے گئے جن سے جوش گریہ اب تک میرے ذہن میں ہے اور اس کی تلخی میرے حلق میں اور گریہ و بگا کے گھونٹ میرے سینے میں ہیں ، اب میں تم سے یہی چاہتا ہوں کہ نہ تم میرے خیر خواہ رہو اور نہ بد خواہ ''۔(٥)

مولا نے انہیں کے قول و فعل کے آئینہ میں ان کی حقیقی تصویر دکھا دی ، آپ کے ذہن میں یہاں کی سیاستیں اور یہاں کے لوگوں کے قول و فعل کا تضاد محفوظ تھا ۔ حضرت مسلم کی دلسوز شہادت ، امام حسین علیہ السلام کے ساتھ عملی بے وفائی اور گرگٹ کی طرح لمحہ بہ لمحہ بدلتے رنگ سب کچھ آپ کی نگاہوں میں گردش کررہے تھے، آپ نہیں چاہتے تھے کہ پھر سے وہ واقعات دہرائے جائیں لہذان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک ہی جملہ میں حکمت کی مثال قائم کردی کہ تم میرے خیر خواہ ہو اور نہ بد خواہ ۔
شام میں آپ کا لب و لہجہ اور انداز بیان کوفہ سے بالکل مختلف تھا ، یہاں مصائب سے پہلے فضائل و کمالات اہل بیت علیہم السلام کا بیان بہت ضروری تھا ، اس لئے کہ اہل شام آپ کے گھرانے کی عظمت و رفعت سے قطعی بے خبر تھے ، انہیں علم نہیں تھا کہ یہ اسیران بلا کون لوگ ہیں ، زنجیروں میں جکڑا ہوا بیمار قیدی حقیقتاً کون ہے ؟ یہ خواتین کون ہیں جن کے انداز و اطوار کائنات سے بالکل منفرد ہیں ، بالوں سے پردہ کا طریقہ ان کے لئے ایک نئی بات تھی ، انہیں بالکل نہیں معلوم تھا کہ اہل حرم کون ہیں اور کہاں سے قیدی بنا کر لائے گئے ہیںاور کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ان کے دماغ میں تو بس ایک ہی بات بسی ہوئی تھی کہ معاذ اللہ ایک خارجی نے یزید ملعون پر خروج کیا جس کے نتیجہ میں وہ اور اس کے اصحاب قتل کردئیے گئے ۔
جس کا بخوبی اندازہ اس مرد شامی کی گفتگو سے ہوتاہے جس نے شام کے راستے میں آپ سے ملاقات کی تھی ، آپ نے اس کے سامنے آیۂ مودت کی تلاوت فرمائی اور پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ اس آیت میں قربیٰ سے مرادکون لوگ ہیں؟ اس نے نفی میں سر کو جنبش دیا تو آپ نے بہت زوردے کر فرمایا : نحن واللہ القربیٰ فی ھذہ الآیة ۔ اسی طرح آیت تطہیر کے بارے میں بھی آپ نے فرمایا: نحن اھل البیت الذی خصھم اللہ بالتطھیر۔(٦)
جب اس مرد شامی نے آیات کے صحیح مصداق کو اپنے روبرو اس طرح دیکھا تو مبہوت ہوگیا اور اس نے واضح طور پر یزید سے برائت کا اعلان کردیا ۔(٧)
متذکرہ روایت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل شام آپ کے گھرانے کی عظمت سے کس قدر بے خبر تھے یا خارجی کہہ کر لوگوں کے دلوں کو حقیقت سے دور کرنے کی کس طرح کوشش کی گئی تھی ۔ ایسے میں امام علیہ السلام نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ بہر حال آفاقی حیثیت کی حامل ہے۔ آپ نے اپنے تعارف اور اہل بیت کی عظمت کو واقعات کے بیان پر فوقیت دی ، راہ شام میں جتنے بھی خطبے اور ارشادات ہیں ان میں سب سے پہلے بہترین انداز میں اپنا تعارف کروایا اور لہجۂ علی کی جھلک دکھلائی۔
دربار یزید میں بھی آپ کا انداز اس سے مختلف نہیں تھا ، وہاں بھی سا ت سو کرسی نشینوں ، غلاموں اور حالی موالیوں سے بھرے دربار میں آپ نے جس انداز سے اپنے خطبہ کی ابتداء فرمائی اس کے نقوش رہتی دنیا تک قائم رہیں گے ، آپ نے خطبہ کی ابتداء کرتے ہوئے فرمایا:
ایھا الناس !ہمیں چھ صفتیں عطا کی گئی ہیں اور ہمیں سات باتوں کے ذریعہ فضیلت دی گئی ہے : ہماری صفتیں علم ، حلم ، سخاوت ، فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے اور ہمارے اسباب فضیلت یہ ہیں کہ رسول مختار ہمیں میں سے ہیں ، صدیق (علی ) ، طیار (جعفر ) ، اسد اللہ ( حمزہ ) ، سیدة نساء العالمین ( فاطمہ ) ، سبطین امت و سیدا شباب اہل الجنة ( حسنین ) ہمارے ہی بزرگ ہیں ۔ جس نے مجھے پہچان لیا اس نے پہچان لیا اور جس نے نہیں پہچانا اس سے اپنا تعارف کرارہاہوں۔
اس کے بعد مولانے اپنا اور اپنے گھرانے کا تعارف شروع کیا جس کا ایک ایک لفظ صدیوں پر محیط ہے ، خداکی قسم !کیا لہجہ تھا اور کتنا دلسوز انداز بیان تھا کہ ایک منزل پر آکر سننے والوں میں شور گریہ بلند ہوا ، ہر شخص اپنا چہرہ موڑ کر رونے میں مصروف تھا کیوں ؟ صرف اس لئے کہ انہیں حقائق کی صحیح آشنائی نہیں تھی ، انہیں ان اسیران بلا کی صحیح معرفت نہیں تھی ، ان کے ساتھ تو دھوکہ کیاگیا تھا کہ ایک خارجی نے خروج کیاتھا جس کے نتیجہ میں قتل کا بازار گرم ہوا ۔لیکن امام سجاد کے حکمت آمیز خطبہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ وہ کوئی خارجی نہیں تھا بلکہ حامی حق و صداقت تھا ، باطل پرست یزید حق و حقانیت کو دبانے کی کوشش کررہاتھا حسین بن علی نے آواز احتجاج بلند کی اور نتیجہ میں قتل کئے گئے ۔

یزید نے جب اس انقلابی کیفیت کو ملاحظہ کیا تو بھونچکا رہ گیا ، امام کی حکمت بھری تقریر پر روک لگانے کے لئے اس نے موذن کو اذان کا حکم دیا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ موذن کو اذان کا حکم دے کر اس نے خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماری ہے ۔ جیسے ہی موذن نے اذان کہنا شروع کیا ، امام خاموش ہوگئے ، اپنی نحیف آواز میں اذان کے فقرات کو دہراتے رہے مگر ایک منزل پر چیخ پڑے ، جب موذن نے '' اشھد ان محمد الرسول اللہ '' اپنی زبان سے ادا کیا تو امام سجاد نے یزید ملعون سے پوچھا : اے یزید !ھذا الرسول اللہ الکریم جدک ام جدی '' یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ تیرے جد بزرگوار ہیں یا میرے ''۔

اس واضح انکشاف نے سارے درباریوں کے سامنے یزید کے چہرے سے مصنوعی نقاب الٹ دی اور حق واضح و آشکار ہوگیا ۔
ہمارا لاکھوں سلام امام کی اس حکمت عملی پر جس نے باطل کے دربار میں باطل پرستوں کے سامنے حق و حقانیت کا لوہا منوالیا۔

حوالہ جات
١۔ مقتل الحسین ، عبدالرزاق الموسوی المقرم ص ٣٨١
٢۔ اللہوف ، سید ابن طاوئوس ص ٦٨
٣۔ شہید اسلام ، محمد ہارون ص ٣١٨
٤۔ شہید اسلام ، محمد ہارون ص ٣١٩
٥۔ شہید اسلام محمد ہارون ص٣١٩
٦۔ المقتل الحسین ، عبدالرزاق مقرم ص ٤١٦
٧۔ مقتل حسین ، مقرم ص ٤١٦

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .